Wednesday, August 12, 2009

بجلی کا بحران : محمد طارق چودھری

موجودہ ہنگامے اور اس پر حکومت کا رد عمل اچانک ہونے والا وقعہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑی لوٹ مار کے لئے احتیاط سے کی گئی منصوبہ بندی کا حصہ ہے ،بجلی کےجعلی بحران کے ذریعے ذاتی مفاد حاصل کرنے کا شیطانی مگر بے داغ منصوبہ ۔ بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں بجلی کی کم پیدا ہونا شروع ہوچکی تھی ، کالا باغ ڈیم متنازعہ بنادیا گیا تھا ، ان دنوں پانی و بجلی کے وفاقی وزیر فاروق لغاری نے غالباً جرمن ٹیکنالوجی کے ذریعے بڑی نہروں اور پہاڑی چشموں پر پن بجلی کے چھوٹے چھوٹے پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنارکھا تھا ۔ اس منصوبے کے ذریعے پچاس برس تک پاکستان کی بجلی کی ضروریات کا خیال رکھا گیا تھا ، اس منصوبے میں فی یونٹ پیداوار کی قیمت تقرباً دس پیسے تھی ۔پن بجلی میں ایندھن کی لاگت کیونکہ صفر ہوتی ہے اسلئے چند برس کے بعد ان منصوبوں سے حاصل ہونے والی بجلی گھریلو استعمال کے لئے گیس جلانے سے بھی سستی پڑتی اور گیس کو صنعتی مقاصد کے لئے بچایا جاسکتا تھا ۔اس سستے ، قابل عمل اور تیز رفتار منصوبے کی بجائے بے نظیر نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ذاتی نفع خوری کے لئے پرائیویٹ پارٹیوں کو بلایا ،یہ منصوبے مقامی ایندھن کی بجائے درآمد شدہ تیل اور گیس پر چلنے کے لئے بنائے گئے جو ہماری ترقی کرتی معیشت کیلئے تباہ کن ثابت ہوئے ۔بجلی اس قدر مہنگی ہوگئی کہ ہماری صنعت و تجارت دوسرے ملکوں کے مقابلے کے قابل نہ رہی ، ان منصوبوں میں چار طرح کی دھاندلی روا رکھی گئی ۔

۱.مہنگا درآمدی ایندھن

۲.مذکورہ ایندھن سے تیار ہونے والی بجلی جو اس وقت دوسرے ملکوںمیں 3سینٹ میں بیچی جارہی تھی وہ 7سینٹ میں خریدی گئی ۔

.3حکومت پاکستان نے 60فیصد پیداوار کو خریدنے کی گارنٹی دی کہ اگر اس سے کم پیداوار ہوتو حکومت 60فیصد کی ادائیگی کرتی رہیگی ۔

4.پراجیکٹ کی اصل قیمت کو بہت بڑھاکر پیش کیا گیا ۔

اس طرح حکومت کی گارنٹی کی وجہ سے پراجیکٹ کی بہت زیادہ قیمت ہونے کے باوجودبینکوں نے قرض دیئے ،اس اضافی رقم سے حکومتی اہلکاروں کو بہت بڑی رقم بطور رشوت ادا کی گئی ،انہی رقوم سے سپین،لندن، امریکہ اور اماراات میں جائدادیں خرید کی گئیں جن کو N.R.O.کے ذریعے جائز بنایا گیا ۔

ان معاہدوں کے نتیجے میں ہم ڈالروں میں تیل خریدتے ہیں اور روپئےمیں بجلی بیچتے ہیں ، جب بجلی کی پیدا وار ضرورت سے بڑھ جائے تو واپڈا کو اپنے سستی بجلی پیدا کرنے والے یونٹ بند کرکے ان پرئیویٹ کمپنیوں کی مہنگی بجلی خرید نا پڑ تی ہے ۔(یہ ہے مرحومہ بے نظیر بھٹو کا وہ تحفہ جس کا لواحقین اب بھی کریڈٹ لیا کرتے ہیں ۔)اب یہ پاور پلانٹ 7سینٹ یعنی ساڑھے پانچ روپئے فی یونٹ بجلی واپڈا کو فروخت کررہے ہیں ، پن بجلی سے حاصل ہونے والی بجلی سے کم ازکم گیارہ سو فیصد زیادہ ۔ اب حکومت پاکستان ان کمپنیوں کو ان کی پیدا واری صلاحیت کے مطابق ادائیگی نہیں کررہی لہذا وہ کمپنیاں 40فیصد کم پیدا وار پر مجبور ہیں ، واپڈا کو ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے یونٹ بھی پوری پیداوار نہیں دے پارہے ۔ کمپنیوں کو ادائیگی نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ صنعت کار اور گھریلو صارفین بل ادا نہیں کررہے بلکہ حکومتی ادارے بطور خاص مرکزی حکومت کے اداروں کے ذمہ اربوں روپئے کے واجبات ہیں جو مرکزی حکومت کو ادا کرنا ہیں ۔مرکزی حکومت کے ادائیگی نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ دیولیہ ہوگئی ہے اور اس کے پاس ادائیگی کے لئے رقم نہیں بلکہ اس کرائسس اور ہنگامہ آرائی کےپردے میں کچھ نئے یونٹ لگانا ہے ۔ ہنگاموں تک قوم کولے جانے کا مدعا یہی ہے کہ ایک ہنگامی صورتحال بنائی جائے ،اس طرح پن بجلی کے منصوبوں کی بجائے ایک مرتبہ پھر پرانا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ اب کے بار نئے یونٹ اور کرائے پر آنے والے پاور پلانٹ سے بجلی بارہ سے پندرہ سینٹ یعنی تقریباً 12روپئے فی یونٹ ،اب بھی دنیا بھر کے مقابلے میں یہ تقریباً دوگنا زیادہ اور پن بجلی کے مقابلے میں 50فیصد زیادہ رقم ہے ۔وہی سانپ اسی سوراخ سے قوم کو دوسری مرتبہ ڈسنے کے لئے تیار ہے ۔

حکومت اور واپڈا کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق 18000میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہے اور ہماری پیدا واری صلاحیت 3000ہزار یونٹ کم ہے ،اگر ان اعدادوشمار کو درست مان لیا جائےتو ملک میں بجلی کی 16فیصد کمی ہے اس حساب سے دن میں زیادہ سے زیادہ 4گھنٹے لوڈشیڈنگ ہونی چائیے جبکہ اس وقت لوڈشیڈ نگ کا دورانیہ 8سے 16گھنٹے یعنی 50فیصد سے بھی زیادہ ہے ۔نہ صرف حکومت کے اعدادو شمار اورلوڈ شیڈنگ کا دورانیہ آپس میں میل نہیں کھاتے بلکہ زمینی حقائق ان کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں ۔ رمضان المبارک میں کمپنیوں کو ادائیگی کرکے لوڈ شیڈنگ ختم کردی گئی تھی ،وہ پہلے بھی جب کمپنیوں کو غالباً 30ارب روپئے کی ادائیگی کی گئی تو پورے ملک میں ایک مہینہ لوڈشیڈنگ نہیں ہوئی ۔دوسری طرف پورے ملک میں بڑی تعداد میں صنعتی یونٹ بند ہوچکے ہیں ،ان صنعتوں سے بچنے والی بجلی 16فیصد کمی کو زائل کردیتی ہے ،حکومت کی طرف سے ظاہر کی جانے والی کمی، بدنیتی ،جھوٹ اور جعل سازی پر مبنی ہے ۔متعدد صنعتوں کی بندش کے بعد بجلی کے لئے پیداواری صلاحیت اور ضرورت میں کوئی فرق نہیں ہے ،واپڈا اور دیگر کمپنیوں کو ادائیگی نہ کرکے لوڈ شیڈنگ کو طول دیا جارہا ہے ،مرکزی حکومت ملک بھر میں بجلی کے حوالے سے پرتشدد ہنگامے چاہتی ہے ،کراچی میں کئی کئی دن تک بجلی کا غائب رہنا اور اس بد انتظامی میں صدر پاکستان کے قریبی عزیزوں کی کمپنی کا ذمہ دار ہونا ،خورشید شاہ جوکہ وفاقی وزیر ہوتے ہیں ان کا یہ فرمانا کہ سڑکوں پر احتجاج کرنے والے سب چور ہیں (حالانکہ کچھ ہی دن پہلے اپنے بیٹے کی شادی کے لئے سجی محفل میں چوری کی بجلی استعمال کرتے پائے گئے تھے ۔ )اس اشتعال کی فضامیں ایک ہنگامی صورت حال پیدا کرنا ہے جس کے پردےمیں پاکستان کی تاریخ میں لوٹ مار کا سب سے بڑا منصوبہ رکھا ہے جس میں کم از کم پچاس ارب روپئےلوٹ لئےجائیں گے ۔دنیا کا یہ انوکھا منصوبہ ہے جس میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنی کو اپنی جیب سے ایک روپیہ خرچ نہیں کرنا پڑےگا بلکہ رشوت کے لئے مطلوبہ رقم بھی منصوبے کے اندر شامل کردی گئی ہے ۔ہر منصوبے کے لئے 14فیصد رقم واپڈا بینک گارنٹی کے بدلے میں ادا کردے گا اور باقی 86فیصد رقم کے لئے سٹیٹ بینگ گورنر کے ذمہ ہے کہ وہ کمرشل بینکوں سے ان منصوبوں کے لئے رقم دلوائے ۔فرض کریں ایک کمپنی 100ارب روپئے کا منصوبہ پیش کرتی ہے جس کی حقیقی قیمت 60ارب روپئےسے زیادہ نہیں لیکن فزیبیلیٹی رپورٹ میں اس کو چالیس فیصد بڑھالیا گیا ہے ،اب اس کے لئے 14ارب روپئے واپڈا ادا کردے گا اور باقی 186ارب روپئے کمرشل بینکوں سے دلائِے جائیں گے ۔اس میں سے 40ارب روپئے کام شروع ہونے سے پہلے نکال لئے گئے ،25ارب حکومت کے اعلیٰ ترین عہدیدار ان کے بعد چھوٹی موٹی ادائیگیاں کرکے کم ازکم 10ارب روپئے منصوبہ ساز کی جیب میں چلے جائیں گے اور یہ ڈھول واپڈاکی گردن میں ہوگا ،ساری قوم باقی عمر اس کو بجایا کرے گی ۔ 25پیسے فی یونٹ بجلی حاصل کرنے کی بجائے آپ اتنی ہی رقم سے 15روپئے فی یونٹ بجلی حاصل کیا کریں گے ۔

کرایہ کے بجلی گھروںکی صورت حال اس سے بھی گھمبیر ہے بقول خواجہ محمد آصف کے یہ قوم کے قتل کا منصوبہ ہے ،اس کووہ سادہ لفظوں میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ فرض کریں آپ کو کرایہ کی ایک گاڑی درکار ہے ،ٹیوٹا گاڑی آپ سے پٹرول کےعلادہ 1000روپئے روزآنہ مانگتی ہے لیکن میں آپ کو 700روپئے کرایہ میں شیورلیٹ گاڑی دیتا ہوں جو اگرچہ 80ماڈل ہے لیکن آرام دہ ہے مگر پٹرول آپ کو اپنی جیب سے ڈالنا ہے ۔شام کو پتہ چلا کہ 700روپئے کی مد میں لینے والی گاڑی نے چار ہزار روپئے کا پٹرول جلا ڈالا ہے جو ٹیوٹا شاید ایک ہزار سے بھی کم استعمال کرتی ۔اس طرح دو ہزار ٹیوٹا کو ادا کرنے کے بجائے آپ کو چار ہزار سات سو روپئے شیورلٹ کے مالک کو ادائیگی کرنا پڑی ۔

کراِیہ پر حاصل کئےجانے والے و ہ پلانٹ ہیں، جن کے انجن بہت زیادہ پٹرول کی کھپت کی وجہ سے چلائے جانے ممکن نہیں رہے ،ان کمپنیوں اور ملکوں نے ان مہنگے اور زیادہ پٹرول خرچ کرنے والے انجنوں کی جگہ جدید اورکم پٹرول خرچ کرنے والے انجن لگائے ہیں۔دوسرے ملکوں اور کمپنیوں کے سکریپ پرانے انجن واپڈا کو کرایہ پر ٹکا دئے جائیں گے ،وہ کمپنیاں بند جو مہنگی ہونے کے باوجود پاکستان کو فی یونٹ ساڑھے پانچ روپئے میں بجلی فراہم کرتی ہیں اور یہ کمپنیاں شروع جو پندرہ روپئے فی یونٹ بجلی فراہم کیا کریں گی ۔ میڈیا اور سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ وہ قوم کی مدد کریں ۔

نوائے وقت4اگست2009ء

(قلم رو .محمد طارق چودھری (سابق سینیٹر

0 comments:

Post a Comment

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More

 
Powered by Blogger